حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،لاہور/ جامع علی مسجد حوزہ علمیہ جامعةالمنتظر میں خطبہ جمعہ دیتے ہوئے مولانا ضیاءالحسن نقوی نے کہا کہ صلح امام حسن علیہ السلام سیز فائر تھا کہ جس میں فوجیں لڑائی بند کر کے گھروں کو واپس لوٹ نہیں جاتیں بلکہ مورچوں میں موجود رہتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حاکم شام نے امام حسن علیہ السلام کے پاس ایک سفید کاغذ دستخط کر کے بھیجا کہ آپ جو بھی شرائط چاہتے ہیں وہ لکھ دیں ۔امیر شام کو صلح پر مجبو ر کرنا فرزند رسول کی کامیابی تھی۔اور انہوں نے اپنی حکمت عملی سے ثابت کیا کہ حاکم شام کا مسئلہ اقتدار ہے ۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک امام حسن علیہ السلام نے صلح کا فیصلہ خود نہیں کیا بلکہ جب حاکم شام کی طرف سے خط آیا تو تمام کمانڈرز کو بلایا اور ان سے مشاورت کی ۔امام نے خطبہ دیتے ہوئے کمانڈروں سے فرمایا کہ جنگ جاری رکھیں تو یہ شہادت کا راستہ ہے اوراگر ہم جنگ بندی کرلیں تو واپس گھروں کو جاکر زندگی گزارسکتے ہیں ۔ کمانڈرز نے کہا کہ وہ زندہ رہنا چاہتے ہیں ۔اس لئے امام نے جنگ کا راستہ اختیار کرنے کی بجائے صلح کا راستہ اختیار کیا۔لیکن دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ کربلا میں امام حسین علیہ السلام نے شب عاشور چراغ بجھا دیا اوراپنے اصحاب سے کہا جو جانا چاہتا ہے چلا جائے ۔کل یہاں جنگ ہوگی مگر امام کے ساتھی ڈٹ گئے کہ انہیں ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جائے، تب بھی آپ کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے تو حالات دونوں مختلف ہیں۔
مولانا ضیاءالحسن نقوی کا کہنا تھا کہ شرائط صلح پر عمل نہ کرکے حاکم شام کے عزائم بھی آشکار ہو گئے۔جبکہ شرائط میں یہ بھی تھا کہ امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام پر جمعہ کے خطبوں میں دی جانے والی گالیوں پر پابندی عائد کی جائے گی ۔ یزید کو جانشین مقرر نہیں کیا جائے گا لیکن اس پر کسی پر عمل درآمد نہ ہوا اور حاکم شام نے کہا کہ وہ نماز روزے کے لیے نہیں ، بلکہ حکومت حاصل کرنے کے لئے لڑ رہے ہیں۔